15 جون 2009 - 19:30

فلسطین ،اسلامی سرزمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے انبیاء علیہم السلام کا مسکن قرار دیا جاتا ہے جہاں قدس شریف واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول کہلاتا ہے۔

یوم قدس ہر سال جمعۃ الوداع کو منایا جاتا ہے ، صرف ایران میں ہی نہیں ، بلکہ ساری دنیا میں حتی اسرائیل کے زير قبضہ علاقوں میں ، اور یہ سب اس عظیم شخصیت کا ایک عظیم کارنامہ ہےکہ جسے ساری دنیا امام خمینی (رح) کے نام سے پہنچانتی ہے ۔ واقعیت امر یہ ہے کہ فلسطین ،اسلامی سرزمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے انبیاء علیہم السلام کا مسکن قرار دیا جاتا ہے جہاں قدس شریف واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول کہلاتا ہے البتہ اپنوں اور غیروں کی سازشوں کے باعث اس اسلامی سرزمین کو مٹھی پھر صہیونیوں کے چنگل میں دیدیا گیا اور پھر بڑی طاقتوں سے مرعوب ہوکر اسلامی دنیا اور عرب ممالک اس کھلے ظلم پر بالکل خاموش ہوکر بیٹھ گئے یوں آہستہ آہستہ اس مسئلے کو فراموش کیا جانے لگا ۔امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی دھونس دھمکیوں اور سازشوں کے نتیجے میں اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے پروگرام پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ۔ ایسے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے نہ صرف ملت فلسطین کے پژمردہ اور مایوس دلوں کو امید کی کرن عطا کی بلکہ دیگر مسلمانوں میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوگئی چنانچہ اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا عمل پورے طور رکا تو نہیں لیکن اسے قدرے بریک ضرور لگ گیا۔ جس کے بعد سازشوں اور چالوں کا نیا جال بچھایا گیا ۔طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلئے دن گنے جانے لگے اور اس مقصد کے لئے اس بار پہلی مرتبہ ایک غیر عرب ملک یعنی پاکستان کو سامنے لایاگیا تا ہم خدا کرنا یہ ہوا کہ فلسطین میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک حماس واضح اکثریت سے کامیاب ہوگئی اور یوں پاکستان کی جانب سے اسرائیل کوتسلیم کرائے جانے کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا ۔البتہ مبصرین کے خیال میں پاکستان کی اپنا کچھ مجبوریاں ہیں اس کا روایتی حریف ہندوستان، اسرائیل کے ساتھ مسلسل پینگیں بڑھا رہا ہے دفاعی و فوجی امور میں دہلی اور تل ابیب کے تعلقات ایسے نہیں ہیں کہ جنہیں پاکستان نظر انداز کرسکے دوسری طرف امریکہ نے اپنی سیاست میں جو مقام ہندوستان عطا کیا ہے وہ بھی پاکستان کےلئے انتہائی ناگوار ہے لہذا پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے تئیں اسرائیل کو تسلیم کرکے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ، چنانچہ ماحول سازی کے لئے پاکستانی اخبارات اور جرائد میں ایسے اداریئے اورمضامین کی بھرمار ہوگئی جن میں اسرائیل کوتسلیم کئے جانے کے فیصلے کو برحق قرار دیا جانے لگا اور ایسی ایسی دلیلیں پیش کی گئیں کہ عقل حیران رہ گئی ۔کسی نے کہا کہ جب فلسطین کے سربراہ یاسرعرفات مرحوم نے کشمیر کے مقابلے میں کبھی ہماری حمایت نہیں کی تو ہم کیوں فلسطین کی خاطر اسرائیل سے اپنے تعلقات منقطع کریں۔کسی نے کہا کہ صدر اسلام میں پیغمبر (ص) کے یہودیوں سے تعلقات تھے لہذا ہمیں بھی اسرائیل سے تعلقات برقرار کرلینے چاہئے ۔یہاں تک کہدیاگيا کہ پاکستان اور اسرائيل میں بہت ہی مماثلتیں پائي جاتی ہیں مثلا" دونوں ملکوں نے ایک ہی سال سن 1947 آزادی حاصل کی ۔یعنی اسرائيل نے آزادی حاصل کی پاکستان کی طرح سے! کوئي پوچھے کہ پاکستان توبرطانوی سامراج کے چنگل سے آزاد ہوا تھا ۔ اسرائیل نے کس کے تسلط سے آزادی حاصل کی؟بہرحال اسی طرح کے سیکڑوں مضامین اور اداریئے پیسے لے کر یا پیسے دے کر لکھوائے گئے لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا حماس کے اقتدار میں آتے ہیں یہ ساری سازشیں اور چالیں ایک دفعہ پھر دم توڑ گئیں، لیکن چونکہ مغرب کے کاسہ لیس اور اقتدار طلب حکمراں اور سیاستدان ابھی زندہ ہیں لہذا اسطرح کی سازشیں پھر سر ابھار رہی ہیں اور سننے میں یہ آرہا ہے کہ اوباما کے پلان کی تائید کرکے محمود عباس عربوں اور اسلامی ملکوں کے لئے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کاراستہ ہموار کردیں گے، چنانچہ ان حالات میں امت مسلمہ کی جو ذمہ داری وہ یہ ہے کہ بیداری کا ثبوت فراہم کرکے اور اس سازش کے عملی جامہ پہنے سے پہلے ہی اپنی مخالفت کا اظہار کردے ۔ اور اس مقصد کےلئے جمعۃ الوداع کوعالمی قدس کاانعقاد انتہائی مؤثر واقع ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ ایسی اطلاعات اب ملنا شروع ہوگئی ہیں دنیا بھر کے غیور اور غیرت مند مسلمان ماضي کی نسبت زيادہ بڑے بہانے پر قدس کا عالمی دن منانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔